رحمت تونیو
حاکمیت! یہ محض ایک لفظ نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں جبر و استحصال کی ایک کی داستاں ہے۔ ظلم کی ساری اشکال کا ظہور اور اس کے نتائج جو محکوم طبقے نے برداشت کیے ہیں، وہ سارے حاکمیت کی ہی دین ہیں۔ اگر آج دنیا کے پسمانده اور ترقی پذیر ممالک کے عوام کی حالت زار نظر آرہی ہے، تو وہ اسی حاکمیت کا اظہار ہے جو طاقت اور تشدد کے ذریے جبر و استحصال کا سلسلہ جاری رکھتے بڑھ رہی ہے۔ سرمایہ دار ممالک، جیسے کہ امریکا، چین اور یورپی یونین کے ممالک سمیت دوسرے اسی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ ساری دنیا پر حاکمیت قائم کی جائے۔ اس موضوع پر کسی اور مضمون میں بات رکھیں گے ، مگر فی الحال ذکر کرتے ہیں معاشرے کا۔
دیکھا جائے تو سماج میں مرد کو میسر حاکمیت قدرتی نہیں بلکہ پدرسری نظام کی دین ہے۔ پدرسری نظام کی کئی اشکال میں سے ایک بد صورت شکل یہ بھی ہے کہ بعض مرد اپنی حاکمیت کا اظہار طاقت اور تشدد سے کرتے ہیں۔ جس کے نتائج عورت (جو ظلم برداشت کرتی ہے) سے زیادہ کون محسوس کر سکتا ہے۔ ذہنی وجسمانی تشدد، جنسی زیادتی یا پھر جنسی ہراسانی و غیرہ کے واقعات سب اسی رویے کی مختلف اشکال ہیں۔ اسی نظام کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین نے مرد کی اونچی شان اور اپنی بظاہر کمتر حیثیت کو من و عن تسلیم کر لیا ہے۔ جس کے باعث مرد عورت کو ایک ایسی کموڈٹی (شے) سمجھتا ہے، جس سے وہ جب چاہے جو مرضی چاہے سلوک کرے۔ اس حقیقت کا سبھی کو ادراک ہے کہ گھر میں حاکمیت کس کی ہے؟ کس کا حکم چلتا ہے ؟ ہر چیز کا ہونا کس کی اجازت سے مشروط ہے ؟ان تمام سوالات کے جواب صرف ایک ہی لفظ میں موجود ہیں، وہ لفظ ہے “مرد”۔ یہاں پر میرے کہنے کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہے کہ مرد ہونا بری بات ہے بلکہ بنیادی طور پر اس صورت حال کا ذمہ دار تو وہ نظام ہے جس نے عورت سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ ویسے تو ہمارے ملک کی نصف سے زائد آبادی عورتوں پر مشتمل ہے لیکن یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ یہی ملک عورتوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سر فہرست ہے۔
بدلتے حالات کے ساتھ ہمارے ہاں ہر شعبے میں خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، ساتھ ہی ان کے مسائل بھی۔ تعلیمی ادارے ہوں یا پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کے دفاتر، ہر جگہ خواتین سے بدسلوکی اور جنسی ہراسگی کے واقعات عام ہیں، لیکن رپورٹ بہت کم ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں خواتین بدنامی کے خوف یا معاشرتی دباؤ کے باعث آواز اٹھانے سے بھی گریزاں رہتی ہیں۔ قانون سے عدم واقفیت اور لاقانونیت بھی ایسے واقعات کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔
آج کل تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات بڑی تعداد میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی نوابشاہ کی طالبہ سے ہراسگی کا واقعہ منظر عام پر آیا۔ کسی یونیورسٹی میں ہراسانی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ سندھ یونیورسٹی بھی ایسے کئی کیسز کی وجہ سے کافی عرصے سے خبروں میں ہے۔ گزشتہ سال ایک ہراسانی کیس تو ایوان بالا تک جا پہنچا، سوشل میڈیا سمیت کئی پلیٹ فارمز سے لوگوں نے مذمت کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ سے مؤثر اقدامات اٹھانے کے مطالبات کیے مگر متاثرہ لڑکیوں کو مختلف حربوں سے دباؤ ڈال کر اشو کو ہمیشہ کے لیے دبا دیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کے خلاف آواز بلند ہوئی، بلاگ لکھے گئے، چند طالب علموں نے تحرک لیا، مگر تعداد کی کمی اور ہراسگی کے خلاف قوانین کی عدم موجودگی کے سبب اتنی پرزور آواز نہیں اٹھائی جا سکی جو بہروں کو سنائی دے ۔ پختونخواہ کی مختلف جامعات بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں یہاں تک کہ بی بی سی جیسے معتبر ابلاغ عامہ اداروں نے بھی پختونخواہ کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے ہراسانی کے مسائل کو بھرپور کوریج دی، مگر نتیجہ نکلا صفر!
بڑھتے ہوئے جنسی ہراسانی کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے 2011 میں ان واقعات کے تدارک کے لئے انسداد جنسی ہراسانی کا قانون بنایا گیا۔ اس کے مطابق “زبان سے، لکھ کر یا اشارے سے جنسی تعلق بنانے کا مطالبہ کرنا، جنسی طور پر رسواکرنا یا الزام تراشی کرنا، انکار کی صورت میں فرائض یا کام میں رکاوٹ ڈالنا، خوف و ہراس والا یا جارحانہ ماحول پیدا کرنا یا شکایت گزار کو بدلے میں سزا دینے کی کوشش کرنا (جیسے کہ نوکری سے نکلوانا یاد دور دراز کے علاقے میں ٹرانسفر کرانا وغیرہ)، جان بوجھ کر ٹکرانا یا اس طرح چھونا جس پر دوسرے فرد کی رضامندی نہ ہو، غیر اخلاقی لطیفے سنانا، جنسی مذاق، جنسی ترغیب دینے والا مواد یا بے لباس تصویریں دکھانا بھی جنسی ہراس کی اشکال ہیں۔”
ماضی کے اور حالیہ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے زیادہ تر واقعات کا شکار طالبات ہوتی ہیں، جنہیں ساتھی طلبہ، اساتذہ ، غیر تدریسی عملہ یا دوسرے افراد کے ہاتھوں مختلف نوعیت کی جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر خواتین انسداد جنسی ہراسانی کے قوانین سے ناواقفیت، بدنامی کے خوف یا معاشرتی دباؤ کے باعث خاموش رہتی ہے۔ اور ہراساں کرنے والے لوگ کاروائی سے محفوظ رہتے ہیں اور پھر سے اپنا دهندا ( جنسی ہراساں کرنا) جاری رکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بھی شہید بینظیر یورنیورسٹی نوابشاہ میں پڑھنی والی نڈر لڑکی فرزانہ جمالی نے ہمت نہیں ہاری۔ فرزانہ اور اس کے خاندان کو وڈیروں، بااثر لوگوں اور سندھ کابینہ کے وزراءسے بھی چپ رہنے کو کہا گیا، کئی طریقوں سے دباؤ ڈالا گیا مگر فرزانہ نے ٹھان لی کہ چاہے کچھ بھی ہو جب تک انصاف نہیں ملتا، تب تک لڑتے رہنا ہے، اور بالاخر فرزانہ اپنی جدوجہد میں سرخرو ہوئیں۔ جنسی ہراسگی کے خلاف سب سے پہلے خود نمٹنے کی کوشش کی جائے ۔ اس کا سب سے بہتر، مضبوط اور موثر طریقہ یہ ہے کہ مخالف کی پہلی حرکت پر ہی رد عمل ظاہر کیا جائے، جو لگی لپٹی کے بغیر واضح اور دوٹوک ہو۔ خاموشی، غیر واضح انداز یاشرمندگی کے اظہار سے مخالف کو حوصلہ ملے گا اور وہ پھر سے غلط حرکت دہرائے گا۔ جیسا کہ فرزانہ جمالی کا کیس ہمارے سامنے ہے کہ اس نے ہمت نہیں ہاری۔ جب وہ اکیلی اٹھی تو اس کی آواز کے ساتھ لوگوں نے بھی آواز بلند کی اور ہم نے دیکھا کہ سوشل میڈیا کے استعمال اور طلبہ و طالبات کی یکجہتی کی طاقت سے یہ مسئلہ منطقی انجام تک جا پہنچا۔ طالب علموں کو ترقی پسند رجحانات کی ترویج کے ساتھ ، ترقی پسند سوچ رکھنے والے حلقوں سے بھی جڑت پیدا کرنا ہو گی۔ اور ہمارے لئے یہ جاننا اشد ضروری ہے کہ طالب علموں کے مسائل کا حل بھی طالب علموں کے پاس ہے۔ اگر ہم سب اکھٹے ہو کر جدوجہد کرتے ہیں تو جنسی ہراسانی اور اس سے درپیش کئی مسائل کا حل ممکن ہو سکے گا۔
یہ مضمون اس سے پہلے شاگرد آواز میں شائع ہو چکا ہے۔