دانش کمار
عام رواجی سوچ سے پرکھا جائے تو تعلیمی ادارے ایک ایسی جگہ تصور کیے جاتے ہیں جہاں علم، مہارت ، قابلیت اور تہذیب سکھائی جاتی ہو۔ ان تعلیمی اداروں سے باہر رہ جانے والے تمام افراد غیر مہذب، غیر مہارت یافتہ اور جاہل تصور کیے جاتے ہیں اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ نصاب کے ماہر لوگوں نے بہترین معاشرتی ضروریات کے تحت ایک باصلاحیت فرد کی تخلیق کے مقصد سے تشکیل دیا ہے مگر مجھے جارج برنارڈ شا کی وہ بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے اپنے مضمون ” ہمارے تعلیمی نظام میں کیا خرابی ہے؟” میں کہی تھی کہ اگر کل ہی برطانوی ریاست کے ہر سکول اور یونیورسٹی کو ہوائی حملے سے اڑا دیا جائے تو یک دم پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا نظر آئے گا”۔ برنارڈ شا کی بات کے تناظر میں تعلیمی اداروں کا کام بالا دست معاشرتی قدروں کی جوں کا توں بنا سوال کیے افزائش کرنا رہ جاتا ہے جو کہ استحصالی بنیادوں پر کھڑا ہوتا ہے۔ سماج کے مختلف طبقوں، قوموں ، اور ثقافتوں سے آئے ہوئے لوگوں کو بالادست طبقے کی طے کی ہوئی سوچ اور علم کا ہی رٹا لگوایا جانا، نصاب کا بنیادی کام سمجھا جاتا ہے۔ تنقیدی نقطہ نظر رکھنے والے تعلیم دان کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں دیا جانے والا علم، جانب دار اور ایک خاص طبقے کے مقاصد کی افزائش کرنے کے غرض سے تشکیل دیا جاتا ہے۔
تدریسی عمل کا یہ انداز سماج میں موجود تفریق اور در جانبداری کو اور زیادہ ہوا دیتا دکھائی دیتا ہے، جس کو مشہور تعلیم دان ہینری جرو “پیداواری علم ( پراڈکٹیو نالج)” کا نام دیتا ہے۔ یہ طریقہ کار آپ کو علم تو دیتا ہے لیکن مقداری انداز میں۔ یہ آپ کے اندر معلومات کی ردی تو بھر دیتا ہے پر اس علم کو پرکھنے کے لیے آپ کو تنقیدی آنکھ سے کانا کر دیتا ہے۔ یہ طریقہ کار آپ کو ایک اچھا رٹاؤ طوطا بناتا ہے اور تنقیدی حس سے خصی کر دیتا ہے۔ اس تدریسی عمل میں استاد فقط ایک اچھا نتظم ہوتا ہے جس کا کام ایک وارڈن کی طرح نظم و ضبط قائم رکھنا اور علمی بھنڈار کی آپ کے اوپر اُلٹی کرنا ہوتا ہے۔ اس کا کام ایک وائٹ کالر کلرک جیسا رہ جاتا ہے۔ یہ تدریسی عمل مختلف ثقافتوں قوموں اور طبقوں کے اوپر بالادست ثقافتی نقطہ نظر کا غلبہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور قوی، طبقاتی و صنفی نابرابری کو نظر انداز کرتے ہوئے اجتماعیت کے نعرے کو پھیلاتا ہے۔ اس طرز اجتماعیت کو مشہور زمانہ تعلیم دان پائلو فرائری نے جھوٹی اجتماعیت یا جھوٹے تعاون (فالس کو آپریشن) کا نام دیا ہے۔ جس طرح پاکستان میں قومی اور ثقافتی حقوق کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ ثقافت کے سیاسی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے محض رسمی نمائش کی افزائش کی جاتی ہے اور ثقافتی دن پر “ہو جمالو” اور “اتن” وغیرہ گا کر ان قوموں کے برابر ہونے کی دلیل پیش کی جاتی ہے اور ان کے سیاسی و معاشی حقوق کو دبا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک افسانوی ہم آھنگی ہے جس کا حقیقی زندگی سے کم ہی واسطہ ہے۔
یہ ساری تدریسی جنگ نصاب یعنی ڈسکورس اور زبان کے ذریعے ثقافت کے میدان میں لڑی جاتی ہے۔ اور ثقافت اور طاقت کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ اسکول معاشرے پر اثر چھوڑنے کے ساتھ ساتھ معاشرے سے بھی اثر لیتے ہیں اور معاشرے میں مروجہ ناانصافیوں کی جوں کی توں توسیع کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک غریب آدمی کا بھی خیال یا خواب یہی ہوتا ہے کہ اس کا بچہ بڑا ہو کر ایک افسر بنے، بیوروکریٹ بنے، اس کے پاس بھی بڑی گاڑی ہو، بڑا گھر ہو اور اس کے پاس بھی ایسے نوکر ہوں جن کو وہ ایسے ڈانٹ سکے جیسے کہ اسے ڈانٹا جاتا رہا ہے۔ یہ سب وہ خواب ہیں جن کی ناانصافیوں کا وہ خود زندگی بھر شکار رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ یہی خواب دیکھتا ہے ۔ یہی وہ ڈسکورس ہے جو بالادست طبقے کے آلاکار کے طور پر عمل میں آتا ہے اور اپنے سے نچلے طبقے کو بھی وہی خواب دیکھنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اس نا انصافی اور فرق پر سوال کرنا نہیں سیکھتا۔ جب ایک غریب بندہ یہ سب نہیں کر پاتا جو کہ دراصل اس کے لئے ممکن بھی نہیں تو اس خواب تک نارسائی اسے سسٹم پر انگلی اٹھانا نہیں سکھاتی بلکہ یہ وہ اسے اپنی ہی کوتاہی سمجھتا ہے کہ مجھ میں ہی کوئی کی تھی کہ میں یہ نہیں کر پایا اور اس کے اندر ایک احسا جرم جنم لیتا ہے اور سسٹم ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ اس احساس جرم کے ساتھ یہ سوچ بھی جنم لیتی ہے کہ بڑے صاحب کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی اپنی محنت کے بدولت ہے اور ہم ہوتے ہی ہڈ حرام ہیں۔ پاولو فرائری کہتا ہے کہ مظلوم دوہرے اختلاف (ڈویل پیراڈاکس) کا شکار ہوتا ہے جہاں ایک جگہ وہ خود مظلوم ہوتا ہے اور خواب پھر بھی صاحب والے دیکھتا ہے۔
تدریسی عمل کا دوسرا طریقہ کار جسے ہینری جرو نجاتی تعلیمی عمل (ڈائریکٹیو ناج) کا نام دیتا ہے۔ پڑھانے کا یہ عمل طلبہ کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ نصاب کے مواد کو وسیع انداز میں معاشرے کے ساتھ جوڑ کر اور اس کی مجموعی افادیت کو پرکھ سکتے ہیں۔ اس سے اس کی تنقیدی اور تجزیاتی آنکھ دیکھنا سیکھتی ہے۔ اور اس کا سیاسی نقطہ نگاہ پھلتا پھولتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ طریقہ کار پینسٹھ کی جنگ کا اس طرح سے تجزیہ کرنا سکھائے گا کہ اس جنگ کے اسباب کیا تھے؟ اس سے کسی طبقے کو فائدہ ہونا تھا؟ کیا یہ فقط ریاستی مک مکاؤ تھا؟ سویلین اور عسکری اداروں کا کتا اور کیا عمل دخل تھا؟ اس تعلیمی طریقہ کار کو ہیبرماس” انقلابی تعلیم” کا نام دیتا ہے جس میں آپ سماجی صورتحال کو سیاسی اور تاریخی انداز میں پرکھنا سیکھتے ہیں۔
مروجہ تدریسی عمل کو سمجھنے اور اس کو تبدیل کرنے کے کے لئے ہمیں اس سے متعلق طاقتی رشتوں ( پاور ریلیشنز) کی نئے سرے سے وضاحت کرنا ہو گی اور یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ طاقت کوئی حتمی چیز نہیں ہوتی بلکہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے جو کہ مطلق العنان نہیں بلکہ اپنے اندر تضادات اور دراڑیں رکھتی ہے۔ طاقت کا آج سب سے بڑا سر چشمہ، گفتگو (ڈسکورس) ہے۔ فلسفی باختِن کہتے ہیں زبان کوئی غیر جانبدار آلہ نہیں جو کہ بولنے والے کی امید اور نیت کی ترجمانی کرتی ہو بلکہ یہ پہلے سے ہی نظریات سے لیس ہتھیار ہوتا ہے۔ یہی ڈسکورس علم کو تشکیل دیتا ہے اور نصاب اور پوشیدہ نصاب دونوں کو جنم دیتا ہے۔ اس صورت میں طاقت اور ڈسکورس فقط بالادست طبقے کا ہتھیار نہیں رہ جاتا بلکہ یہ باختِن کے بقول آوازوں کی کثرت (پولی فونی آف وائسز) ہوتی ہے جو بالادست اور ماتحت طبقوں کے درمیاں کشمکش کا سبب بنتی ہے۔ اور اس طرح سے ہم تنقیدی زبان (لینگویج آف کریٹیک) اور امید کی زبان (لینگویج آف پوسی بیلیٹیز) کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔
اس زمرے میں ہمیں باختِن کا کام بہت کام آسکتا ہے۔ وہ کہتا ہے زبان کا استعمال ایک سیاسی اور ساتھی عمل ہے جس کے ذریعے انسان معنی تخلیق کرتا ہے۔ اور وہ کہتا ہے کہ تنقیدی گفتگو کے ذریعے کس طرح سماج کی مختلف اکائیوں کو اپنی آواز مل سکتی ہے۔ پاولو فرائری باختِن کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے زبان اور ثقافت کے ربط کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اسے سیاست سے جوڑتا ہے۔ دونوں کا خیال تاریخ کے کلیت کے تصور کو رد کرتا ہے اور تعلیمی اداروں کو ایک تنازعے کی جگہ کہتے ہیں جہاں پر امکانی اور تنقید کی زبان کے ذریعے نصاب کے تنقیدی تجزیے سے ایک نچلے طبقے کی آواز کو جنم دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ادارے فقط ایک ایسی جگہ نہیں جہاں بالادست طبقہ اور رشتوں کا جنم ہوتا ہو پر یہ وہ جگہ ہے جہاں بالادست اور ماتحت آوازوں کی کشمکش بڑھتی ہے۔
ان خیالات کو ہم موجودہ رائج نصاب کے تجزیے اور تنقید کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسے ہینری جرو کے بقول نصاب بھی ڈسکورس پر مشتمل ہے جس میں پہلا مرحلہ ڈسکورس آف پراڈکشن ہے کہ ایک نصاب کے بننے میں کن طبقات کے خیالات کو تقویت دی گئی ہے اور کس کے سیاسی مفادات کو ترجیح دی گئی ہے؟ پبلی کیشن کون سی ہے وغیرہ۔ اس طرح ایک استاد کا نصاب کے مواد کو جوں کا توں نافذ کرنے تک کام نہیں رہ جاتا ہے بلکہ یہ سب ایک استاد پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس طرح کے سوالات کلاس روم میں اٹھائے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ عبارتی تجزیہ (ڈسکورس آف ٹیکسچوئل انالِسیس) ہے یہ صورت اساتذہ اور طلبہ کو ٹیکسٹ کی چیر پھاڑ کرنے میں مدد دے گی اور یہاں پر پڑھنے والا غیر فعال صارف (پیسیو کنزیومر) نہیں رہ جاتا بلکہ فعال تخلیقار (ایکٹیو پروڈیوسر) کی حیثیت لے لیتا ہے۔ ہینری جرو کے مطابق یہ سارا تدریسی عمل اور اس کے گرد پیدہ ہوتا ہوا ڈسکورس تین آوازوں کے ملاپ سے ممکن ہوتا ہے۔ اسکول کی آواز، استاد کی آواز اور شاگرد کی آواز۔
اسکول کی آواز یہ طے کرتی ہے کہ کونے نظریات اور ماحول کے مطابق کلاس روم سیٹنگ ہونی چاہیے۔ کون سا مواد پڑھانا چاہیے اور کس انداز سے پڑھانا چاہیے۔ استاد کی آواز فیصلہ کن آواز ہوتی ہے کہ آیا وہ سٹیٹس کو یا اسکول کی آواز کو بغیر سوال کیے ان کے کہے ہوئے اصولوں پر طلبہ میں اتارتا ہے یا اسے پسے ہوئے طبقے، قوم یا ثقافت کی حمایت میں استعمال کرتا ہے۔ استاد کی آواز شاگرد کی آواز کو طے کرنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔
پس اس مروجہ بالادست تعلیمی نظام میں ایک استاد اپنی تنقیدی اور امکانی زبان سے ایک طرف اس پورے تدریسی عمل پر سوال اٹھا سکتا ہے تو دوسری طرف طلبہ کے اندر اس مروجہ آواز کے مقابل ایک متبادل آواز کو بھی جنم دے سکتا ہے۔
یہ مضمون اس سے پہلے “شاگرد آواز” کے نومبر ۲۰۱۹ء کے شمارے میں چھپا تھا۔
آرٹ ورک: شاگرد آواز