فدا وزیر
وزیر اعظم عمران خان جب وزیر اعظم نہیں تھے تو وہ اپنے بیانات میں اکثر تعلیم کی بات کرتے تھے۔ جناب عمران خان کے مطابق ہماری حکومت کی اولین ترجیح پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود اور پسماندہ علاقوں کی ترقی و خوشحالی اور تعلیمی معیار کو ٹھیک کرنا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت تعلیم کے شعبے میں سب سے پیچھے ہیں۔ لیکن عمران خان کی حکومت میں فاٹا اور بلوچستان کو تعلیمی میدان میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔
سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے میڈیکل طلباء و طالبات کا ہائیر ایجوکیشن کمیشن آفس کے سامنے 36 دنوں سے دھرنا جاری ہے۔ فاٹا اور بلوچستان کے میڈیکل طلباء اور طالبات کی265 نشستیں تھیں جس کو ایچ ای سی وفاقی حکومت کے تعاون سے سپورٹ کرتی تھی۔
طلبہ میں سابقہ قبائلی اضلاع اور بلوچستان کے طلبہ شامل ہیں جن کے مطابق فاٹا انضمام کے بعد حکومت نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ انہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو سال 2017 سے 2022 تک پاکستان بھر کے میڈیکل کالجز میں 265 سیٹوں پر داخلے ملیں گے مگر صرف گزشتہ سال تک اُن کو یہ کوٹہ ملا اور امسال طلبہ کو اس سہولت سے محروم کر دیا گیا۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ سابقہ فاٹا اور بلوچستان بہت پسماندہ علاقے ہیں، یہاں پر تعلیم مکمل صفر ہے۔ فاٹا اور بلوچستان سے آئے ہوئے طلبہ، میڈیکل کی265 نشستوں کیلئے 37 دنوں سے ایچ ای سی آفس اسلام آباد کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہے لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی قابل بخش اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ ایچ ای سی والے ہمیں کہتے ہے کہ ہمارے ساتھ فنڈز نہیں ہیں، طلبہ کے مطابق شہید عثمان کاکڑ نے باقاعدہ طور پر سینٹ سے قرارداد پاس کی ہے کہ پی سی ون یعنی پلاننگ کمیشن کے مطابق کے مطابق یہ فنڈز ہمیں وفاقی حکومت دے گی اور پی سی ون کے تحت حکومت 2029 تک ہمیں فنڈز دے گی۔
دھرنے میں بیٹھے فدا وزیر کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے تحت سالانہ، فاٹا کے 132 بچے پاکستان کے مختلف میڈیکل کالجوں میں جاتے ہیں اور یہ سب وہ غریب بچے ہوتے ہیں جو خود اپنے آپ کو کسی عام تعلیمی اداروں میں سپورٹ نہیں کر سکتے۔
وزیر کے مطابق یقیناً، فاٹا میں صحت عامہ کی صورتحال تو پہلے ہی برباد ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ فاٹا کے اپنے ڈاکٹرز نہیں ہیں اور باہر کے ڈاکٹرز یہاں پر ڈیوٹی نہیں کرتے، اس بات کی ایک مثال ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال جنوبی وزیرستان وانہ ہے جس میں 45 ڈاکٹرز کی ڈیوٹی تھی اور ہسپتال میں صرف 6 ڈاکٹر ڈیوٹی کرتے تھے وہ بھی صرف دو گھنٹے تک ، جو چھ ڈاکٹر ڈیوٹی کرتے تھے وہ مقامی ڈاکٹرز تھے۔
جب ایک اور طالبعلم ریاض وزیر سے ہم نے رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے لیکن اس کے باوجود فاٹا میں نہ میڈیکل کالج ہے نا کوئی یونیورسٹی ہے اور نہ کوئی اور معیاری تعلیمی ادارہ۔ ریاض وزیر کے مطابق فاٹا کی عوام بہت غریب ہے اور اس کی وجہ ہم پر گزرے ہوئے حالات ہیں۔ ہم بے گھر ہوگئے، ہمارے تعلیمی مراکز کو نقصان پہنچا اب حکومت کو چاہیے کہ ہمیں موقع دے تاکہ ہم اس ملک اور قوم کی وہ خدمات کریں جو ایک ذمہ دار شہری کو اپنے ملک کے لئے کرنا چاہیے۔ ریاض کے مطابق ہمارے حکومتی وزراء سے ملاقاتیں ہوگئی ہیں لیکن کوئی قابل بھروسہ پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ ریاض کے مطابق یہ میڈیکل سیٹیں ہمیں جو قردار میں دی گئی ہیں وہ 2028 تک ہیں اور 2028 تک صرف فاٹا کے 2200 سے زیادہ میڈیکل طلبہ اپنی میڈیکل تعلیم حاصل کریں گے جو علاقے کی شعبہء صحت میں انقلاب لا سکتی ہے۔
فاٹا سے ایک اور طالبعلم رفیق وزیر نے کہا کہ فاٹا میں تعلیم کی صورت حال کبھی بھی اچھی نہیں رہی باوجود اس کے کہ یہاں لوگوں میں علم حاصل کرنے کا شعور اور لگن دونوں موجود ہیں۔ گذشتہ سالوں کے دوران فاٹا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور طب کی تعلیم کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے قائم کرنے کے وعدے کیے گئے لیکن پورے نہیں کیے گئےاور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ساٹھ لاکھ سے زائد آبادی کی قبائلی پٹی میں کوئی ایک بھی سرکاری یا نجی یونیورسٹی نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے اپیل کرتے ہیں کہ سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے مسائل حل کریں اور ان کی سیٹیں بڑھائیں۔ کیونکہ یہ قوم کے بچے ہیں اور پاکستان کا مستقبل ہیں۔