طبقاتی تفریق، نظامِ تعلیم اور نصاب

جے کمار

پاکستان بننے کے کئی اسباب ہیں لیکن جس دو قومی نظریہ کے تحت اس ملک کا قیام ہوا وہ جلد ہی شناختی بحران کی زد میں آ گیا۔ ایک طرف وہ قومیں جن کی ہزاروں سالوں کی تاریخ، ثقافت، زبان، رسم و رواج، دوسری طرف مذہب کی بنیاد پر بننے والا ملک! ان تمام قوموں کے تنوع کو ختم کرکے ایک مذہبی شناخت کے دھاگے سے باندھنے کی کوشش کی گئی اور ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھنے والی زبانوں پر اردو کو فوقیت دی گئی۔ جس کے بعد جو کچھ بھی بنگال میں ہوا وہ شروعاتی جھلکیاں تھی۔ اس جھوٹی شناخت کے پیچھے پاکستان ایک کثیر القومی اور لسانی ملک ہے، جسے ہماری ریاست تسلیم کرنے سے انکار کر کے بیٹھے ہے۔ قوموں کی الگ شناخت کو مذہب کا لبادہ اوڑھا کر ایک قوم کا تصور دینے کی شروعات اور ان کی ذہن سازی سکولوں سے شروع کی گئی۔ جہاں پر بچوں کو اپنی تاریخ، شناخت، ثقافت اور اپنے سورماؤں سے ہٹ کر ایک ایسی تاریخ پڑھانے کی کوشش کی جو لوگوں پر ایک قسم کے ذہنی تشدد کے طور پر تھا اور اپنی ہزاروں سال پرانی تمام تاریخ سے بے خبر رکھ کر اس تسلسل کو ختم کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ جسے 1959ء والی نیشنل ایجوکیشن کمیشن (شریف کمیشن) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

  یہ تھی پہلی شروعات، اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں جو تعلیمی پالیسیاں تشکیل دی گئیں، انہوں نے مذہب کے نام پہ ایک ایسی نسل تیار کی جس نے مکمل طور پر اپنے تاریخی ورثہ سے دستبردار ہوکر جہاد کا رخ کیا۔ ضیاء وہ پہلا شخص تھا جس نے نصاب میں جہاد جیسے موضوعات کو جگہ دی اور ہتھیاروں، ٹینکوں کی تصاویر دینے کے ساتھ ساتھ ‘اسلام خطرے میں ہے’ کے نام پر لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کیا۔ یہ ایسی آگ تھی جس میں ہم آج تک جھلس رہے ہیں۔ خوبصورت اور حسین شہروں کے شہری اس مذہبی جنونیت کی زد میں آ گئے، بچے سائنسی تعلیم سے محروم بن کر جہادی تعلیم اور ہتھیار اٹھانا سیکھنے لگے۔ تعلیمی نصاب میں ہندو اور بھارت مخالف موضوعات کو جگہ دی گئی اور بچوں کی تاریخ کی طرف سمجھ نفرت اور غصے والی بن گئی۔ ایک ایسا نصابی ماڈل بنایا گیا جس میں قوم کو ایک کرنے کے لیے ہندوستان اور ہندوؤں سے نفرت کرنا سکھائی گئی۔ اب ایک بار پھر پی ٹی آئی حکومت ضیاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ یکساں نصاب والا قدم باہر تو اتنا پرکشش ہے جو ہر کسی کو لگتا ہے کہ اب تعلیمی تفریق ختم ہوجائے گی۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

گزشتہ چند مہینوں سے “یکساں قومی نصاب” تعلیم دانوں کی بحث کا موضوع رہا ہے، جس میں مختلف لوگوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اے ایچ نئیر کے مطابق: ‘یکساں قومی نصاب مدارس کی دینی تعلیم سے زیادہ بھاری نصاب ہے۔’ جس کا مطلب ہے کہ مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب سے زیادہ، یکساں نصاب میں اسلامائزیشن پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان میں 30 لاکھ بچے مدارس میں پڑھتے ہیں تو دوسری طرف 2.5 کروڑ بچے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ عمران خان کا نعرہ ہے کہ ‘میں یکساں قومی نصاب کے ذریعے تعلیمی امتیاز ختم کروں گا’۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا کہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو مین اسٹریم تعلیم کا حصہ بنایا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا 30 لاکھ بچوں کے لیے 2.5 کروڑ بچوں کے معیار تعلیم کو کم کر کے ان 30 لاکھ کے برابر کیا جائے؟ بجائے اس کے کہ ان تیس لاکھ بچوں کو 2.5 کروڑ بچوں کی سطح پر لایا جائے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یکساں نصاب سے نابرابری ختم ہو جائے گی؟ اگر اتنی ہی فکر ہے تو یکساں نصاب کی بجائے یکساں تعلیمی نظام بنائیں؟ جس میں ہر غریب، ہر امیر کے بچے یکساں فیس دے کر تعلیم حاصل کر سکیں۔

بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ امیر اور غریب ایک ہی صف میں نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ وہ ایک ہی جیسی تعلیم بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ تعلیم نافذ کرنے والے اداروں کی ترجیح ہی نہیں رہی۔ حالیہ یکساں نصاب، بنیادی طور پر ضیاء سے چار قدم آگے والی پالیسی ہے، اس قدم سے یہ لگ ہی نہیں رہا کہ بالائی طبقے کو تعلیم کی فکر بھی ہے۔ مگر جن بحرانات سے یہ ملک چل رہا ہے وہاں ایک بار پھر فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی جیسے بیج بونے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا قوم صرف نصاب میں ایک ہو سکتی ہے؟ اگر یکساں نصاب نہیں تو ایک قوم کا تصور حقیقت میں بن سکتا ہے کیا؟ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مختلف خطوں میں مختلف نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ بنیادی تعلیم اپنی مادری زبان میں دینے کے بجائے نصاب میں ایک ایسی مرکزیت قائم کی گئی ہے کہ بچے کو ارد گرد کی حقیقت سے ہٹ کر ایک ایسی مرکزی سمجھ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جس سے بچہ کسی بھی طرح ان کو تنقیدی طرح نہیں سمجھتا، اسے محض رٹا لگوایا جاتا ہے۔

 سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں سوشل سٹڈیز سے لے کر جغرافیائی سائنس تک کی کتب میں بھی کافی حد تک مذہبی عناصر شامل کئے گئے ہیں۔ جنرل نالج اور اخلاقیات میں بھی زبردستی مذہب کو شامل کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے یکساں قومی نصاب خود آئین کے آرٹیکل (1) 22 کے بنیادی حقوق والے باب کی خلاف ورزی ہے۔ یہ آرٹیکل اقلیتوں کے مخصوص حقوق کا تحفظ دیتا ہے، جس میں کوئی بھی شخص کسی ایسے تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں لے سکتا یا کسی بھی ایسی تقریب میں حصہ نہیں لے سکتا اور کسی بھی ایسے مذہبی عبادت خانے میں نہیں جا سکتا یا جانے کا پابند نہیں، جس کا اس کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن مندرجہ ذیل کچھ مضامین اور چند لازمی مضامین جیسے کہ انگریزی، سندھی اور اردو مضامین کی شروعات ہی کسی ایک مذہبی شناخت طور ہوئی ہے۔ یکساں قومی نصاب 18ویں ترمیم کی بھی خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس ترمیم کے تحت تعلیم صوبائی اختیار کا حصہ ہے۔ اس نئے نصاب پر تنقید کرنے والے تعلیم کے ماہرین کی رائے کو سنا ہی نہیں گیا اور نہ ہی ان سے مشاورت کو اہمیت دی گئی، ان ناموں میں زبيده مصطفیٰ، اے ايڇ نيئر جیسے نام شامل ہیں جن کی رائے کو اہمیت تک نہ دی گئی۔ اس کے بعد ان لوگوں کے تنقیدی مضامین اخبارات میں شائع ہوئے۔

یکساں نصاب والا فیصلہ جھوٹی اتفاق رائے سے کیا گیا فیصلہ ہے، جس کے بارے میں ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ یہ نصاب مختلف تنقیدی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یکسانیت کی معنی ایک رنگ، چاہے وہ تھر میں موجود ریت جیسا بھی ثابت ہو سکتا ہے، لیکن جس یکسانیت کی ہم بات کرتے ہیں وہ ہے ہی ایک باغیچہ کی مثل، جس میں مختلف اقسام کے پھول ہوتے ہوئے بھی ایک باہمی خوبصورتی بخشتا جو ہر دل کو لبھاتی ہے۔ ایک ایسی کثرت کو کسی نہ کسی طرح ایک خوبصورت وحدت کو ہی جنم دیتی ہے اور وہ تب ہی ممکن ہے جب ہمارا نظام تعلیم غیر طبقاتی، سیکیولر اور سائنس دوست ہوگا۔

یہ مضمون اس سے پہلے شاگرد آواز میں شائع ہو چکا ہے۔
سندھی سے ترجمہ: جے کمار

Spread the love

Leave a Reply