ثناگر علی
ہر ایک چیز سمائے ہوئے ہے اپنی نفی
ہر اک اقرار کے سنگ رہتے ہیں انکار کئی
یہ اس طرح ہے جیسے کوئی بچھڑنے کو ملے
یہ اس طرح ہے جیسے شاخ سوکھنے کو کھلے
جیسے گھر بیٹھنا مانندِ سفر ہو جائے
سانس لینا بھی فضاؤں میں زہر ہوجائے
جیسے گاؤں میں ابھر آتی ہو شہروں کی شکل
جیسے مجرم ہی کے سینے میں ہو معصوم سا دل
سب کی ہنستی ہوئی آنکھوں سے جھلکتا ہوا غم
جیسے شہنائیوں کی گونج میں اٹھتا ماتم
آج کا شخص اپنی جیت سے ہارا ہوا ہے
اس کو اٹھنے کی خواہش نے گرایا ہوا ہے
امن کے نام پر اک جنگ بپا رکھی ہے
ایک جنت میں جہنم سی سجا رکھی ہے
شوقِ تعمیر میں تخریب نہاں رکھتا ہے
جیسے خوش ہوتے ہوئے آہ و فغاں رکھتا ہے
یوں تو چلتی ہے زندگی ہی زمیں کے اوپر
ساتھ رہتی ہے مگر موت بھی سایہ بن کر
ہر عمل اپنے نتائج کا مؤجد ٹھہرا
اور ہر سوچ بناتی ہے عمل کا چہرہ
تم اگر بینک بناؤ گے، ڈکیتی ہوگی
تم اگر ‘مال’ بڑھاؤ گے تو چوری ہو گی
تم یہاں کچے مکانوں کو گرا دو گے اگر
لوگ محلات اکھاڑیں گے بغاوت بن کر
بھوک ہوتے ہوئے اسلحہ خرید لاؤ گے
ذلت و موت کے اسباب اٹھا لاؤ گے
کاٹ چھوڑو گے اگر تم پہاڑ و جنگل کو
پھر چلی آئیں گی دنیا میں وبائیں کل کو
ہم پہ واجب ہے سمندر کی حفاظت کرنا
دریا و نہر کے قاتل سے مسلسل لڑنا
اب نئے طور کے اظہار بنائے جائیں
اپنے اقرار و نفی جس میں سمائے جائیں