وقاص عالم انگاریہ
خطہ پاکستان میں قومی سوال اور اس کے گرد موجود سیاسی بیانیہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس ریاست کی بنیاد میں جھول موجود رہا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ شہری علاقہ جات میں، جہاں پر قوموں کا ایک سنگم ہو، وہاں اس سوال پر سیاست کرنا بہت کم حد تک قابل مفید ہے۔ قوم پرست سیاسی جماعتیں، ایک قوم کی نمائندہ جماعتیں تو ہوسکتی ہیں، مگر وہ کسی بھی ایسے بیانیہ کو پیدا نہیں کرسکتیں، جو کثیرالثقافتی خطہ میں ایک مضبوط اور مستقل بنیادوں پر ایک انقلابی تحریک ابھار سکیں، جو محظ اس قوم کے سوال سے جڑی نہ ہو بلکہ اقوام کے درمیان ایک ہم آہنگی اور مشترک کار جدوجہد کی رہبر ہو۔
تاریخِ انسانی میں دو اقسام کی انقلابی تحاریک ابھری ہیں؛ ایک تو وہ جو ایک خطہ اور قوم کے محور میں تھیں، جن کا مقصد اس قومی سوال اور جبر کے خلاف اعلانِ بغاوت کرنا تھا، جو سامراج اور نو آبادیاتی راج نے ان پر مسلط کیا تھا۔ اس جدوجہد کا تھیسس، اس خطہ اور قوم کے منفرد جبر سے ماخوذ تھا اور جو اس کے منفرد حالات کا عکس رہا ہے۔ لیکن چونکہ اس قسم کے جبر کی نوعیت، عالمی جبر کی نہیں ہے، لہٰذا اس کی جدوجہد کا دائرہ کار بھی عالمی نہیں رہا۔
دوسری طرف وہ تحاریک ہیں، جن کا محور عالمی نوعیت کا تھا، ان کے تھیسس کا ماخذ بھی وہ بیانیہ ہے، جو پورے عالم میں موجود انسانوں میں کسی حد تک مشترک ہیں۔ یعنی وہ عناصر جو ہر انسان کے، چاہے وہ کسی بھی قوم، خطہ اور زبان سے ہو تب بھی وہ کسی نہ کسی حد تک ان مسائل میں ایک جیسا ہو، اس شخص کے، جو اس سے ہزاروں میل دور رہتا ہے۔ لیکن ان جبر کے مختلف زاویوں کو صحیح تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس ان کا تاریخی علم اور خاص کر کالونیل ازم اور سامراج اور اس کے میکنزم سے وجود میں آنے والی حکومتوں کی ایک وسیع معلومات ہو، جو نہ صرف ان کی تاریخی پہلو سے متعلق ہو بلکہ وہ اس کے سیاسی منصوبہ بندیوں اور اس کی نظریاتی اساس کا علم بھی رکھتا ہو تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ وہ کون سا جھول تھا کہ سامراج سے آزاد ہونے پر بھی سامراجی اجارہ داری کو برقرار رکھا گیا۔
جیسا کہ یہ طے ہوا ہے کہ عالمی مسائل، عالمی نظریہ کے مرہون منت ہیں اور خطہ و قوم کے مسائل کے لیے مقامی سائنسی نظریہ قابل عمل ہے مگر سامراج کے ابھرنے سے اس بنیادی اصول میں ایک نئی جہت نے جنم لیا ہے، جس کی بنیاد سیاسی و فلسفیانہ مباحث سے پرے پختہ سیاسی طریق کار سے ہے۔ مدعا سمجھنے کا یہ ہے کہ سامراج تو اپنی ہئیت میں عالمی ہے اور اس کی جدوجہد کی شکل بھی عالمی طرز کی ہونا اصول ہے مگر اس کے خلاف جنگیں بیشتر اوقات قوم پرست انقلابی تحریکیں ابھارتی ہیں۔ در حقیقت سامراج کی “عالمیت” کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ پوری عالم کی محکوم اقوام پر الگ الگ طریقوں سے، الگ الگ سوالوں پر استحصال کرتے ہوئے اپنی منڈی اور مارکیٹ کو توانا کرتا ہے۔ وہ کہیں پر مذہب کے نام پر قتل کرتا ہے کہیں اقوام پر، کہیں خطہ کی جنگ ہے، کہیں نسل و رنگ کی۔ سامراج کا یہ طریقۂ واردات مفید اور سمجھنے کے لئے بہت پیچیدہ ہے۔ اس کے اس طریقۂ واردات سے مختلف اقوام آپس میں نہ جڑ پاتی ہیں نہ ہی سامراجی سوال پر کوئی مستقل حل نکلتا ہے اور اسی وجہ سے سو سال سے زیادہ عرصہ کے باوجود سامراج اپنی مختلف شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے۔
پاکستان میں پہلی بار قومی سوال کا شدت سے سامنا بلوچستان کی 1948 میں جبری الحاق سے سامنے آیا۔ تب کی مسلح جدوجہد ناکام ہوئی مگر اس سوال نے بڑھتے ہوئے 1971 میں بنگلہ دیش کو الگ کیا اور اب پورے ملک میں یہ سوال اپنے آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ پاکستان میں جیسے جیسے سرمایہ کاری کے نام پر علاقوں کے وسائل کا استحصال شروع ہوا اور بین الاقوامی پراجیکٹس کے نام مارکیٹ منڈی سے وہ تمام وسائل جبری استعمال کیے جانے لگے جو اس خطہ کے لوگوں کا حق تھا، ویسے ویسے قومی سوال میں شدت سے اضافہ ہونے لگا۔ اس معاملہ نے ملک کی لیفٹ جماعتوں کو جو بڑے شہروں میں مرکوز تھے، مثلاً کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ میں یہ تجزیہ کرنے کا موقع نہیں دیا کہ آیا اس مسئلہ پر کیا موقف اختیار کیا جائے؟ لیفٹ نظریات کی الجھنوں میں الجھی رہی اور پیچھے نسل کشی، وسائل کی لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ سامراجی ریاست نے کس طرح قومی سوال سے لیفٹ کا تعلق توڑنے کی کوشش کی اس کی مثال دیکھیں کہ ہر استحصالی پراجیکٹ میں فرنٹ لائن لوگ عام مزدور تھے جو مختلف ریاستی مشینری کے زیر سایہ کام کرتے رہے اور پھر قتل بھی ہوئے اور لیفٹ کی تنظیمیں قوم پرست جماعتوں کو شاونسٹ کہتی رہیں اور قوم پرست جماعتیں لیفٹ کو سیاسی آلہ کار۔ جب کوئی مشترکہ تجزیہ نہیں بن پایا تو قومی سوال سے مزدور سوال حرف مکرر کی طرح مٹ گیا اور مزدور اتحاد سے قومی سوال کا خاتمہ ہوگیا۔
اصولی طور پر ان دونوں کی جڑت کے بغیر کوئی بھی تن تنہا معرکہ سر نہیں کرسکتا۔ اس پر سب سے اچھا تجزیہ لینن کا موجود ہے جس نے سب سے بہتر سامراج کے فینومینا کو سمجھا اور اس پر لکھا۔ 1915 میں سوشلسٹ انٹرنیشنلنسٹ کانفرنس میں زمروالڈ منشور پیش کیا گیا تھا جس کا بنیادی نقطہ جنگ عظیم اوّل میں آرمینیا اور مختلف علاقوں کے جبری الحاق پر ایک مذمتی پلان تشکیل دینا تھا۔ اس منشور میں قومی آزادی کو سامراجیت کے خلاف واحد حل قرار دیا گیا اور بار بار یہ باور کرایا گیا کہ یورپ کی نیشن اسٹیٹ، سامراج کا خاتمہ کرے گی۔ اس پر لینن نے شدید تنقید کی اور نہ صرف اس منشور کے جواب میں ایک مقالہ لکھا بلکہ اس پروگرام کو مزید ریڈیکل بنانے کے لئے کوشش کی۔ اس نے اپنے مقالے “انقلابی پرولتاریہ اور حق خود ارادیت” میں اس نقطہ پر کڑی تنقید کی اور لکھا کہ “یہ بات تو بجا ہے ہے صرف حقیقی جمہوریت جو محنت کشوں کی ہو وہی انہیں تقویت دے سکتی ہے لیکن یہ احمقانہ بات ہے کہ اس پورے انقلابی پروگرام کو سمیٹ کر محض قومی سوال پر منتج کردیا جائے، جبکہ ہم انقلابیوں کو قومی سوال کو جوڑ کر مزدور سوال کے ساتھ ہر قسم کا رستہ اختیا کرنا چاہیئے، جس کا مقصد حقیقی جمہوریت ہو، رضا کار فوج، پاپولر الیکشن، خواتین کے برابری کے حقوق اور اقوام کی خود ارادیت شامل ہیں”۔ لینن کا یہ ماننا تھا کہ یورپ کے لئے قومی سوال اب قصہ۔پارینہ بن چکا ہے جبکہ یہ سوال مشرق کے ممالک کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اس نیشن اسٹیٹ کا پلان کس طرح یورپی یونین میں تبدیل ہوا اور کس طرح یورپ نے پوری دنیا کے سرمائے کو اپنی یونین کے ذریعہ اپنے ہی لوگوں کو خوشحال کرنے کے لئے استعمال کیا۔ درحقیقت یہی وہ مدعا تھا جس پر لینن کا خدشہ تھا کہ بورژوا قوم پرستی در حقیقت اپنی خودارادیت اس لئے مانگتی ہے کہ وہ دوسری اقوام پر جبر کرسکے۔ یورپی یونین نے یہی کیا۔ یہ وہ پروگرام تھا جو لینن نے کثیرالثقافتی علاقوں کے لئے بنایا جس کا مقصد قومی جبر سے متعلقہ اقوام، شہری مزدور اور خواتین کا سوال مل کر ہی کسی ایک نقطہ پر اکھٹا ہوسکتے ہیں جو سامراج کے خلاف ایک تعداد میں جدوجہد کرسکیں۔ اسی طرح تیسری دنیا کے خطوں کے لئے جہاں کالونیل ازم یا سامراج براہ راست موجود تھا مثلا ہندوستان، چائنہ اور فارس وہاں ابھی قوم پرست تجربات نئے نئے ابھرے تھے اور مزدور سوال موجود نہیں تھا ان کے لئے اپنے مقالے “سوشلسٹ انقلاب اور اقوام کا حقِ خود ارادیت” میں لکھتا ہے کہ “سوشلسٹ کی ان علاقوں میں غیر مشروط طور پر یہ موقف ہونا چاہئے کہ ان علاقوں کو فی الفور آزادی دی جائے اور اس سوال سے آگے کسی سوال کو نہ رکھا جائے بلکہ ان خطوں میں ہر محکوم قوم کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ بغاوت کرسکیں۔ ان ضمن میں ان محکوموں کی مدد سوشلسٹ جماعتوں پر لازم ہے”۔
اس طریقہ ہائے کار میں اس تضاد کی نہ صرف نشاندہی کی گئی ہے، جو مزدور کی عالمی جدوجہد کے نظریہ کی قومی جدوجہد کے درمیان ہے بلکہ اس کا جدلیاتی تجزیہ بھی فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، جو میری رائے میں کچھ یوں ہے: تمام کثیرالثقافتی علاقوں میں سوشلسٹ تنظیموں کو مزدوروں میں خود کو مضبوط تر بنانا ہوگا، ان کو متحد کرنا ہوگا اور جب مزدور اتحاد قائم ہو تو اسے قومی سوال کے لئے لڑ رہی اقوام کے ساتھ غیرمشروط پر جڑت کرنی ہوگی تاکہ ان کی جدوجہد کو توانا کیا جاسکے جبکہ قومی سوال پر سیاست کر رہی جماعتوں کو اپنے پروگرام میں مزدور اتحاد کے سوال کو اور عورت کے سوال کو الگ کئے بغیر ان کے ساتھ نتھی ہونا پڑے گا تاکہ وہ اقوام جو قومی سوال کی حساسیت سے بےبہرہ ہیں، ان کو اس جدوجہد میں شامل کیا جائے۔ اس بات کا احساس رکھتے ہوئے کہ ریاست قومی سوال کو دبانے کے لئے کسی بھی حد تک اپنے آلات کار استعمال کرسکتی ہے، مگر یہ ذمہ داری سوشلسٹ تنظیموں کی ہے جو اس فینومینا پر ایک پختہ نظریاتی تھیسس تشکیل دیں اور پروگرام دیں جو اقوام کی لڑائی کو تقویت دے سکیں۔
یہ مضمون اس سے پہلے افکار میگزین میں شائع ہو چکا ہے۔
آرٹ ورک: فاطمہ شہزاد