اکرم اعوان
آج سے ہزاروں سال پہلے انسان ممالیہ جانوروں کے آرڈر پرائمیٹس کی فیملی ہومیڈائی سے تعلق رکھنے والی ایک جنگلی سپیشز (نوع) تھی۔ ہم آج بھی اسی نوع سے ہی تعلق رکھتے ہیں مگر زرعی، آہنی اور صنعتی ادوار کو طے کرنے کے بعد ہم “مہذب انسان” کہلاتے ہیں۔ ہم نے جنگل کاٹ کر شہر بسائے اور جنگلی حیات کو ان کے آبائی مسکن سے بے دخل کر دیا۔ پاکستان کا سب سے جدید شہر اور دارالحکومت بھی جنگل کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ آج بھی تیندوا کبھی کبھار رات کے وقت مارگلہ کے قریبی سیکٹرز میں آ پہنچتا ہے۔خوش قسمتی سے آج تک اسلام آباد میں تیندوے کے انسانوں پر حملے رپورٹ نہیں ہوئے لیکن ہزارہ، آزاد کشمیر اور حال ہی میں جموں سے کچھ ایسی سرخیاں خبروں کی زینت بنی ہیں: “تیندوے نے شہر میں گھس کر دو آدمیوں کو زخمی کر دیا”. دراصل جنگلی جانور شہروں میں نہیں گھس رہے بلکہ ہمارے شہر جنگلوں میں گھس رہے ہیں۔ انسان، جانور، پرندے، جنگلات، پہاڑ، دریا اور سمندر، تمام ایک ہی سیارے اور ماحول کے باسی ہیں اور بحیثیت اشرف المخلوقات اس ماحول کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری بنی نوع انسان پر ہے۔
انسان نے موجودہ ترقی کا سفر ہزاروں سال کے طویل عرصہ میں طے کیا ہے۔ صنعتی انقلاب یا صنعتی دور کے آغاز کے بعد انسانی ترقی اور دنیا میں تبدیلی بہت تیز رفتاری سے عمل میں آئی ہے۔ اس تبدیلی کے مثبت اثرات صرف بنی نوع انسان پر جبکہ منفی اثرات تمام نباتات، حیوانات اور جمادات پر مرتب ہوئے ہیں۔ انسان نے دریاؤں اور سمندروں کو مسخر کیا۔ اب اس کی نظریں چاند اور دیگر سیاروں پر ہیں۔ پتھر کے دور میں انسان جنگلی پھل کھا کر یا جنگلی جانوروں کو شکار کر کے اپنا پیٹ پالتا تھا، آج اس نے خوراک کے مسئلے پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ یہ الگ موضوع ہے کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے آج بھی دنیا کے 690 ملین لوگ غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ بنی نوع انسان کو جنگلات نے لاکھوں سال تک پالا ہے اور آج بھی ہمیں ان کی ضرورت ہے۔
گذشتہ ایک صدی میں جانوروں کے اندھا دھند شکار اور ان کے قدرتی مسکن (جنگلات) کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے بے شمار انواع معدومیت کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ دنیا میں اس کی ایک بڑی اور تازہ ترین مثال شمالی سفید گینڈا ہے جس کا آخری نر، جس کا نام ‘سوڈان’ تھا، مارچ 2018ء میں کینیا میں دم توڑ گیا۔ یہ وہ جانور تھا جو 50 ملین سال سے زمین پر رہائش پزیر تھا اور جو بد ترین جغرافیائی حادثات کو سہہ چکا تھا لیکن محض دو لاکھ سال قبل آئی مخلوق یعنی انسان کے سامنے نا ٹک پایا۔ پاکستان میں آج سے چند سو سال پہلے تک ببر شیر، ٹائیگر، ایشیائی چیتا اور گورخر (جنگلی گدھا) پائے جاتے تھے جن کا آج نشان تک موجود نہیں ہے۔ آج بھی بڑے ممالیہ جانورں میں جنگلی سور کے علاوہ تمام انواع کی نسلوں کو معدومیت کا خطرہ درپیش ہے جن میں کالا ہرن، برفانی چیتا، تیندوا، بھورا اور کالا ریچھ، نیل گائے، آئیبکس، مارخور، اڑیال اور مختلف قسم کے ہرن شامل ہیں۔ پرندوں میں بھی سارس، سائبیرین کونج، مور، چکور، سفید سر بطخ، چیر فیزنٹ، تلور، مختلف قسم کے گدھ اور شاہین شامل ہیں۔
سمندروں میں صنعتی آلودگی اور تیل کے جہازوں کے ڈوبنے کی وجہ سے آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستانی سمندروں میں 5 نسلوں کے سمندری کچھوے پائے جاتے ہیں اور تمام ہی نسلیں معدومیت کے دہانے پر ہیں۔ یہی حال دریاؤں کا ہے۔ پاکستان میں پائی جانے والی انڈس ڈالفن (بلہن) کی آبادی ڈیمز بننے کی وجہ سے مختلف آبادیوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ اور اس کے علاوہ تازہ پانی کے کچھوں کی تمام انواع اور مچھلیوں کی بے شمار اقسام کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھنے اور اس کے نتیجے میں کارخانوں اور گاڑیوں کے تعداد میں اضافے اور بے پناہ دھویں کے اخراج کی وجہ سے ہماری فضاء روزانہ کی بنیاد پر آلودہ تر ہو رہی ہے۔ دنیا میں سالانہ 9 فیصد اموات فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی بدولت ہوتی ہیں۔ اس قدر دھواں اوزون کی تہہ جو زمین کے گرد ایک غلاف کی طرح لپٹی ہوئی ہے، میں بھی شگاف ڈال چکی ہے۔ اوزون کہ یہ تہہ سورج سے خارج ہونے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے زمین کو محفوظ رکھتی ہے۔ اس شگاف کی وجہ سے الٹراوائلٹ شعاعیں براہ راست زمین پر پڑ کراس کے درجہ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) کا سبب بن رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ ایک سنجیدہ عالمی مسئلہ ہے۔ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے۔ اگر گلوبل وارمنگ اور اس کے نتیجے میں سطح سمندر میں اضافہ یوں ہی جاری رہا تو دنیا کے بڑے شہر مثلاً نیویارک، میامی، شنگھائی، بنکاک، جکارتہ وغیرہ مستقبل بعید میں سمندر کی زد میں آسکتے ہیں۔ کراچی، ممبئی، کلکتہ کا حال بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ مسئلہ ہماری سوچ سے بھی ذیادہ بھیانک ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا کی 20٪ آبادی ساحلی شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ مالدیپ ایک ایسا ملک ہے جو کہ سطح سمندر پر واقع ہے تو ظاہر ہے کہ سب سے پہلے مالدیپ ڈوبے گا۔ اسی لیے 2009ء میں مالدیپ نے زیر آب کابینہ کا اجلاس منعقد کر کے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ہم سب کو مل کر مالدیپ کو اوزون کو، سمندر کو، گلیشیئرز کو اور پوری دنیا کو بچانا ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے ساتھ ساتھ تمام جانور، نباتات اور پانی کے ذخائر بشمول گلیشیئر اور جھیلیں ہمارے ماحول کا حصہ ہیں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان سب کی بقاء کی لیے کوشش کریں کیونکہ ماحول کی بقاء ہی دراصل ہماری بقاء کی ضمانت ہے۔ قدرت نے تمام نباتات اور حیوانات کو ایک خاص تناسب میں ترتیب دیا ہے جس کو “ایکو سسٹم” کہا جاتا ہے۔ انسان نے اس تناسب کو اپنی ترقی کے چند ہزار سالوں میں برے طریقے سے بگاڑا ہے۔ ہم “فوڈ چین” کے عین وسط میں موجود ہیں لہٰذا ہمیں اپنے سے اوپر اور نیچے ہر ایک نسل کو بچانا ہوگا۔ فوڈ چین سے مراد قدرت کا یہی تناسب ہے جس کے تحت ایک ہر حیوان اور نبات کسی نا کسی طور پر دوسرے پر خوراک کے لیے انحصار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سمندروں میں موجود بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا کر ان کی آبادی کو کنٹرول میں رکھتی ہیں۔ اگر بڑی مچھلیوں کی آبادی ختم ہو جائے تو سمندر چھوٹی مچھلیوں سے بھر جائیں۔ اسی طرح اگر شہد کی مکھیاں دنیا سے معدوم ہو جائیں تو ایکو سسٹم اس قدر تیزی سے تباہ ہو گا کہ انسانی آبادی چار سال کے اندر ختم ہو سکتی ہے۔
پاکستان ماحولیاتی آگاہی کے معاملے میں دنیا کے بد قسمت ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں پرندوں کی تقریباً 700 انواع، ممالیہ جانوروں کی 170، تتلیوں کی 440، خزندوں (ریپٹائلز) کی 206 جبکہ جل تھیلیوں (ایمفیبینز) کی 21 انواع پائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں مختلف قسم کے جنگلات بھی موجود ہیں، جیسا کہ مخروطی جنگلات (چیڑ، دیودار اور چلغوزہ وغیرہ) جو کہ پاکستان کے شمالی اور مغربی پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں پیلو، کریر، شیشم، شہتوت، ببول، سفیدہ وغیرہ۔ جبکہ ساحلی علاقوں میں مینگرو کے جنگلات بھی موجود ہیں۔ پاکستان 3 زوجیوگرافیکل خطوں (پیلیارٹک، انڈو-ملاین اور افروٹروپیکل) کے سنگم پر واقع ہے جس کی وجہ سے اس کی جنگلی حیات میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ فاریسٹ کور کے لحاظ سے دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔ جنگلات دنیا کے کل رقبے (خشکی) کا کل 31 فیصد ہیں۔ ہمارے رقبے کا صرف 5 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے جبکہ بھارت میں یہ 22 فیصد اور بنگلہ دیش میں 15 فیصد ہے۔ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی گھریلو ایندھن اور دیگر ضروریات کے لیے بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ زیارت کے جونیپر کے جنگلات، جو کہ دنیا کے قدیم ترین جونیپر فاریسٹ میں شمار کیے جاتے ہیں اور ہمارے ساحلی علاقوں میں موجود مینگرو کی جنگلات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ مینگرو کے جنگلات سمندری طوفانوں سے ساحلی علاقوں کو محفوظ رکھنے اور ساحلی کٹاؤ کے خلاف ایک ڈھال کے طور پر کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔
خوش قسمتی سے ڈیجیٹل کیمرہ اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد پاکستان کے لوگوں میں ماحولیات سے متعلق تھوڑا بہت شعور ضرور آیا ہے۔ لوگوں میں وائلڈ لائف فوٹوگرافی کا شوق تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ماحولیاتی آگاہی کا پیغام ملک بھر میں پھیل رہا ہے۔ انہی فوٹوگرافرز کی ہی مدد سے گذشتہ ایک دہائی میں پاکستان سے 25 پرندوں کی انواع پہلی بار ریکارڈ ہوئی ہیں جبکہ تتلیوں کے نئے ریکارڈ ہر سال آ رہے ہیں۔ یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے کیونکہ ابھی تک ہمیں اپنے ملک کی جنگلی حیات کی تعداد کے بارے میں بھی مکمل معلومات نہیں ہے اور یہ کام سٹی سائنٹسٹس اور ماہرین علم حیوانات (زولوجسٹ) مل کرسرانجام دینے کی وجہ سے ہمارا علم اس ضمن میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ جس قدر ہمیں کسی چیز کے متعلق علم ہو گا اس قدر ہم اس کی بھلائی کے لئے کام کر پائیں گے۔
ماحولیات کا عالمی دن 5 جون کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری عوام میں ماحول، اسکی بقاء ماحولیاتی تبدیلوں اور اسکے انسانی زندگی پر پیدا شدہ منفی اثرات سے متعلق آگاہی پیدا کی جائے۔ ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور کاربن فٹ پرنٹ کو کم کرنے کا واحد موثر ذریعہ درخت لگانا ھے۔ درخت ہمارے ماحول کیلیے اتنے ہی ضروری ہیں جتنے جسم کےلیے پھیپھڑے۔ انسان کورونا وائرس کے باعث گھروں میں قید ہیں، دھواں اڑانے والی فیکٹریاں اور کارخانے بند پڑے ہیں، گزشتہ کچھ روز میں ہی ان پابندیوں کے نتیجے میں ماحولیاتی نظام میں بہتری نظر آئی ھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قدرت انسان سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے؟ چند ہی روز میں وینس(اٹلی) کے کنال پھر سے ہنسوں کے جوڑوں اور مچھلیوں نے آباد کر دیے ہیں۔ چین میں کاربن فٹ پرنٹ میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ جنگلی حیات خود کو محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ کیا ہم قدرت کے وار کے متحمل ہیں؟ کورونا وائرس کے نتیجے میں پیش آنے والی صورتحال سے تو لگتا ہے کہ نہیں۔ تو کیوں نا قدرتی ماحول سے دوستی کر لی جائے اور اس کی دیکھ بھال ایسے ہی کی جائے جیسے کسی بچے کی، کی جاتی ہے؟ کیوں نہ قدرت کو محفوظ محسوس کروایا جائے۔ سائنسدانوں کے مطابق تمام وائرس وائلڈ لائف سے انسانی آبادیوں میں پہنچے ہیں، چاہے وہ ایبولا وائرس ہو یا ڈینگی۔ یہ وائرس شہروں کے پھیلاؤ کے نتیجے میں جنگلی حیات سے انسانی آبادی تک اس طرح پہنچتے ہیں مثلاً ایک چمگاڈر جس کے جسم میں ہینیپا وائرس موجود ہے اور دونوں ساتھ میں ارتقائی عمل سے گزرے ہیں۔ یہ وائرس چمگاڈر کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، مگر کسی اور جانور یا انسانوں کے لیے یہ وائرس موت کی نوید ہوگا۔ جب انسان کسی بھی جانور کے مسکن کو تباہ کرتے ہیں تو وہ وہاں سے کوچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اب یہ چمگادڑ بھی شہری پھیلاؤ کے باعث اپنے مسکن سے کوچ کرتے ہوئے کسی آبادی تک پہنچا۔ درخت پر بیٹھے اس نے کسی پھل کو چکھا اور پھل کا کچھ حصّہ زمین پر گر کیا۔ زمین پر موجود کسی گائے یا سور نے اس پھل کو کھایا اور یوں وائرس اپنے جانے پہچانے ہوسٹ سے انجان ہوسٹ میں منتقل ہوگیا۔ اب یہ جانور انسان کے دسترخوان پر پہنچا اور یوں انسانوں پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔
جانوروں کے مسکن تباہ ہوتے ہی کئی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ انسان آئے روز نئی وباؤں سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ چونکہ ہر بیماری چاہے وہ ملیریا ہو یا ایڈز جنگلوں سے آئی ہے تو کیوں نہ جنگل کاٹنے کے بجائے ان کی حفاظت کی جائے تا کہ جو چیز جہاں کی ہے وہاں ہی رہے۔ قدرت کے کچھ اصول ہیں اور انسان کو بھی اب چاہیے کہ ان اصولوں کے تابع اپنے سسٹم تشکیل دے، نہیں تو کل کو کورونا وائرس سے زیادہ بڑی آفت کے لیے خود کو ذہنی طور پہ تیار رکھے۔
آرٹ ورک: فاطمہ شہزاد
بہت جامع آرٹیکل جس میں تقریباً تمام وجوہات کو تحقیق کو اس کا حصہ بنا کر پیش کیا گیا ہے. ماحولیات کے مضمون سے آگاہی ہی پہلا قدم ہے کہ ہر انسان اپنے دائرہ کار میں ماحول میں بہتری لا سکتاہے. اگر ہم یوں ہی چلتے رہے تو باقی جاندار کیا ہماری اپنی بقا مشکل ہو جائے گی…