مندرجہ ذیل انٹرویو، کورونا یکجہتی مہم کی ایک رضاکار اریج حسین نے، وباء کے آغاز میں خواجہ سرا علیشا رضوی سے لیا، جب عوام شدید مشکلات سے دوچار تھی۔
سوال ۱: یکجہتی کیا ہے یا یک جہتیی سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جواب: یکجہتی مطلب ہم آہنگ ہونا، ہم قدم ،ہم زبان اور اک معاشرے میں رہتے ہوئے اک دوسرے کی شریک غم ہونا اور دوسروں کی درد کو محسوس کرنا ۔ہماری ملک کا سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ بھی یہی ہے کہ یہاں کے لوگ برادری ،مسلک، مذہب اور جغرافیائی طور پر منقسم ہیں اور اس کی وجہ سے دیگر اقوام عالم سے بہت مایوس کن حد تک متعصب ہیں۔
سوال ۲۔ کورونا وائرس کی وبا نے کس طرح لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کیا؟ یا کس طرح کورونا وائرس کی وبا نے آپ کی زندگی میں مشکلات پیدا کیں؟
جواب: کورونا وباء اک آزمائش ہے جو ہماری ناخواندہ عوام کے لیے اک تفریحی موت اور مذاق ہے۔ ان پڑھ ہونے کی سبب یا کم خواندہ ہونے کی سبب لوگوں نے اس بیماری کو چند دن اور کچھ لوگوں تک محدود سمجھ کر طبی ماہرین کی احکامات کو اہمیت نہ دے کر اس بیماری کو انتہائی مہلک وبا بنا دیا ہے اور کچھ بیہودہ قسم کے مذہب پرستوں نے اس کو کفار پر خدا کا عذاب قرار دے کر بات ہی ختم کردیا اور فتوے لگادیئےکہ یہ مسلمان مومن عاشق رسول کو نہیں لگ سکتی جو وقت نے غلط ثابت کردیاجس کی وجہ سے ہر فرد مالی ذہنیاور گھریلو مشکلات سے دوچار ہے۔
سوال۳۔ وبا کے دنوں میں یکجہتی کی کس قدر اہمیت ہے؟
جواب: یکجہت قوموں نے دنیا میں ہر لحاظ سے ترقی کی ہے۔ چین ،کوریا ،روس ،سنگاپور ، ملائشیا وغیرہ وغیرہ۔ وبا اک آزمائش ہے اور امتحان میں وہی پاس ہوسکتا جس نے تیاری کی ہو ہماری عوام ہر چیز سے اس لیے متاثر ہوجاتی ہے کہ ان میں شعوراً یا عملاً یک جہتی مفقود ہے اور بے علم ہونے کی باوجود خود کو عقل کل سمجھ کر ہر معاملہ میں دخل دینا اور ہر چیز میں رائےدینا کو قومی اور دینی فریضہ سمجھتے ہیں جب تلک خود کورونا کی مردہ مریض کو چیک نہ کریں یقین ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو سامراجیت کے یا مخالف ممالک کی فتنہ یا سیاست قرار دیتے ہیں۔
سوال۴۔ کون سے عناصر لوگوں کی ضروری احتیاطی تدابیر پہ عمل نہ کرنے کا باعث بنتے ہیں ؟
جواب: تعلیم کی کمی، جاہلانہ تجسس، دیندار لوگوں کی بات پر بے جا یقین، قومی بے جا فخر کہ ہم پاکستانی ہیں کورونا ہمیں کیا کہے گا، افراد کے معاشرے میں بس خود کےلیے یا اہل خانہ کےلیے فکر مند ہونا اور دوسروں کے پرواہ نہ کرنا ( یک جہت نہ ہونا )۔
سوال۵۔ یہ یقینی بنانا کس قدر اہم ہے کہ وبا کے دوران کوئی بھی اشیائے ضروریہ سے غیر منصفانہ طور پہ محروم نہ رہ جائے؟
جواب: لوگوں میں شعور اور بیداری پیدا کرنے سے کہ ضرورت مندوں کیےحق کو پامال نہ کریں اور حقیقی ضرورت مندوں کو تلاش کرنا اور ان تک ضروریات پہنچانا ۔دین اسلام یہ تو تعلیم دیتا ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر برتری نہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ تضاد ہر چیز اور ہر عمل میں نمایاں ہے اور یہی فرق اور تضاد لوگوں میں انسانیت کی کمی کر کے انھیں جنگل کیاک وحشی جانور میں تبدیل کر دیا ہے جو کسی اور کی مصیبت، درد اور رنج و غم کو بھول کر بس شکم پرستی ،ہوس ،مقام اور رتبہ کی تلاش میں انسانی حقوق کو پامال کر کے بس خود کے لیے سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
سوال۶۔ کورونا یک جہتی مہم جیسے پہلوؤں نے اس وبا سے سنگین متاثر افراد کے لیے کیا کیا ہے؟
جواب: اس مصیبت زدہ زمانے میں بس چند ایسی تنظیمیں ہیں جنھوں نے بلا فرق مذہب و مسلک، رنگ، قومیت یا جنسیت کے، سب کو یکساں مدد فراہم کی اور یک جہتی کی ساتھ مستحق لوگوں کو، یہاں تک کہ ہم جیسے خواجہ سرا لوگ جنھیں معاشرے نے اک عضوءِ معطل اور بے کار سمجھ کر معاشرے سے الگ کیا ہوا ہے۔ اس مہم نے ہمیں سینہ سے لگا کر نیت خلوص کی ساتھ مدد فراہم کی۔ ان میں عوامی ورکرز پارٹی سرِ فہرست ہے، جس نے گلی گلی، نگر نگر خدمت بہ انسانیت کی جذبہ سے سرشار ہو کر ہر اک ضرورت مند کو مدد فراہم کی۔ میں شوگر کی بیمار اک 54 سال کی خواجہ سراء، محتاج انھوں نے میری اک فیس بک میں شائع شدہ درخواست پر مجھ تک پہنچ کر ہر طرح کی امداد، دوائی ،ہسپتال، رقم اور راشن کی صورت میں امداد کی، نہ کوئی تصویر لی، نہ کوئی مووی بنائی۔ انسانیت کی رو سے نہ مذہب پوچھا، نہ قومیت، بس مدد کرتے چلے آرہے ہیں ۔اگر اشتراکیت یہ سب کچھ سکھاتی ہے، تو سرخ سلام ہو تمام ان جیسے دوستوں پر۔