انتساب: خزاں سے ہمہ وقت نبرد آزما پھولوں کے نام

(ع۔ح۔بخاری)

دسمبر کی یخ بستہ شب

انگڑائی پہ انگڑائی لیتے

جدا ہونے کی منتظر ہے

حیات کا ایک اور سال

ہزاروں کج ادائیں

مرے سر تھوپ چکا ہے

مایوسیوں کے کہرہ ساز اندھیرتے میں

لال صبح کی ہلکی سی جھلک دیکھی ہے

یہ برس بچھڑتے بچھڑتے

امیدوں کے دیے جلارہا ہے

مایوس روحوں میں

زندگی کی پھونکیں ماررہا ہے

بدگمانیوں اور خوش گمانیوں کو مدمقابل لاکھڑا کرکے

جہت کے ان گنت تضادات کا ٹکراؤ کررہا ہے

کیا تخالفین کے اس ٹکراؤ سے

ایک نیا سورج طلوع ہوگا

کیا آنے والا برس

ہماری صداؤں کو مقوی کرے گا

کیا گردونواح میں بسے

بے بس انسانوں کو

مرتبۂ انسانیت ملے گا؟

کیا اب کے برس

پھول سے چہروں کی تمکنت پہ

کوئی خاردار آہنی آہٹ

پھر کاری ضرب تو نہ لگائے گی؟

کیا زباں کا قفل توڑنے کی پاداش میں

علم بانٹتا استاد

سولی پہ تو نہ چڑھایا جائے گا؟

کیا آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتا

انسانوں کی نعشوں کے انبار پہ

خاکی لباس میں سگار سلگائے کھڑا

آمر، جابر،قادر

لاکھوں اشکبار آنکھوں کا موجد

تختۂ دار پہ لٹکایا جائے گا

اب کے برس

روشنیوں کے دیے جلانے والے

کہیں تاریکی کے ہاتھوں

جلا تو نہ دیے جائیں گے

مگر !!!

چہکتے خوش باش

عزم و استقلال سے پیوست

جذب و جنوں میں بڑھتے

جوانانِ اہلِ وطن کا جذبہ

لال و لال کی تھاپ پہ کہ رہا ہے

اب کے برس

پھول مرجھانے کے سبھی آرزو مند

پھولوں سے نہ ٹکرا پائیں گے

ہاتھ گریباں سے جو الجھے ہوئے ہیں

اب کے معافی کے لیے جوڑے جائیں گے

اب وادئ پر خار میں

چہکتے ہوئے گلاب ملیں گے

مرے وطن کی باسی فضائیں

نکہتِ انسانیت سے معمور ہوں گے

خزاں سے نبرد آزما پھول

اب نہ کسی آہنی آہٹ سے

نہ خاکی گڑگڑاہٹ سے

مرجھا پائیں گے

یخ بستہ شب کے آخر میں

جڑی بوٹیوں کی آمیزش سے تیار

تازہ تازہ سگریٹ کے دھوئیں میں

سرخ سویرا ڈھونڈھ رہا ہوں…..

8 دسمبر 2019

Spread the love

Leave a Reply